🍃باہر کا ماحول🍃

 والدین کی ایک بڑی تعداد ہے  جو یہ کہتے ہیں ہمارا بچہ دوستوں میں رہ کر بگڑ گیا ہے، باہر کے ماحول نے اسے بگاڑ دیا یے، بچہ جھوٹ بولے تو دوستوں نے سکھایا، بدتمیزی کرے تو دوستوں نے سکھایا، بچہ گالی دے تو دوستوں نے سکھایا ہے، یقین جانیں یہ سوچ ہی پُٹھی یے۔


درحقیقت بچے کے بگڑنے کی وجہ والدین کے اپنے فرائض کی عدم ادایئگی ہے، شروع سے ہی بچے کی تربیت کو اہم فریضہ سمجھا جاتا، بچے کی پرورش کو اولین ترجیح دی جاتی تو یہ بچہ دوستوں میں جا کر کبھی خراب نہیں ہوتا بلکہ دوستوں کی اصلاح کا سبب بنتا۔۔


بچہ پیدا ہوتے ہی دوستوں میں نہیں جا بیٹھتا، پیدا ہوتے ہی اسکے دوست اسے لینے نہیں آ جاتے، پیدا ہوتے ہی آوارہ گردی شروع نہیں کرتا، پیدا ہوتے ہی سگریٹ نہیں پکڑتا، کم و بیش شروع کے دس سال تک بچہ مکمل والدین کے ساتھ اٹیچ ہوتا ہے اور یہی وہ دورانیہ ہے جہاں اکثر و بیشتر والدین عدم توجہ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔


بچہ جب پیدا ہوتا یے اسکا دل و دماغ بلکل کورا کاغذ ہوتا ہے جو دیکھے گا سنے گا وہ اس پر چھپتا چلا جاۓ گا، اب ہم نے اس کاغذ پر کچھ نہیں لکھا زمانہ لکھتا چلا گیا، اگر ہم بچپن میں ہی اپنی تربیت اس کاغذ پر اتار دیتے تو زمانے کو برائیاں اتارنے واسطے جگہ ہی نا ملتی۔


جب ماں اور باپ نے اپنی تربیت شروع میں ہی بچے کے اندر اتار دی تو یہ بچہ خراب لوگوں سے مل کر خود کبھی خراب نہیں ہوگا بلکہ خراب لوگوں کے لیۓ اصلاح کا سبب بنے گا۔۔۔


ہمارے معاشرے میں تربیت کے نام پر رسمی جملے دہراۓ جاتے ہیں، بیٹا جھوٹ بولنا بری عادت ہے، بدتمیزی کرنا بری عادت ہے اور یہ رسمی جملے کبھی بچے کے اندر نہیں اترتے بلکہ نہایت ذمہ داری کے ساتھ، غور و فکر کے ساتھ اور دلچسپی سے کی جانے والی تربیت کو بچہ اپنے اندر اتارتا ہے، ہم معاشرہ دیکھ لیں ہر والدین بچے کو رٹے رٹاۓ جملے سکھاتے ہیں لیکن فائدہ کوئ نہیں اور اسکی وجہ یہی کہ تربیت واسطے فکرمند نہیں، دلچسپی نہیں، ہاں سیکھ جاۓ گا، سمجھ جاۓ گا، ابھی چھوٹا ہے اور اسی سوچ نے بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے۔۔


ڈرامے اور فلمیں دیکھتے ہوۓ مائیں بچوں کو دودھ پلا رہی ہیں، ایک ہاتھ میں بچے کا فیڈر ہے تو دوسرے ہاتھ میں موبائل ہے، ذرا سا بچہ رونے لگ جاۓ تو ٹی وی کھول کر دے دیں گے، موبائل ہاتھ میں دے دیں گے، اسے کارٹون لگا دیں گے، کوئ موسیقی سن کر بچہ ہاتھ پیر ہلانے لگ جاۓ تو سارے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے، اب وہ ماں اپنے بچے کی اعلی پرورش کیسے کر سکتی ہے اسکی خود کی زندگی ڈرامے، فلمیں، موسیقی، شاپنگ، گھومنا گھمانا، موبائل فیس بک تک محدود ہو۔۔


ایک نظر باپ کی ذمہ داریوں پر ڈالیں تو بس وہی رسمی معاملات کہ بچے کے خرچے پورے ہو رہے ہیں، ضروریات و خواہشات پوری ہو رہی ہیں پورا دن کام میں مصروف گھر آۓ کھانا کھایا، بچے کو ایک راؤنڈ لگوا کر پھر دوستوں میں مصروف، اور پھر گھر آ کر موبائل میں مصروف، اسی طرح دن پھر ہفتے اور پھر سال گذر جاتے ہیں لہذا اس بچے کی تربیت کا جو سب سے اہم دورانیہ تھا وہ والدین نے اپنی ہی مصروفیات، اپنی ہی مستیوں میں ضائع کر دیا بعد میں سر پکڑ بیٹھے کے اولاد نا فرمان ہے، اولاد بدتمیز ہے، دوستوں نے بگاڑ دیا، ماحول نے خراب کر دیا، ارے بھئ ماحول کے ساتھ تو وہ بعد میں جڑا یے، دوست تو اسکے بعد میں بنے ہیں، اتنے سالوں سے تو وہ آپ ہی کے پاس تھا۔۔۔


ماں اور باپ دونوں کو مل کر ذمہ داری کے ساتھ بچے کی تربیت کرنی ہوگی، اپنے آپ کو لگانا ہے، اپنے آپ کو کھپانا ہے، اولاد کی تربیت واسطے ماں کی گود سب سے پہلی اور اہم درسگاہ ہے ماں اسے سینے سے لگاۓ اپنی تربیت بچے میں منتقل کرے، اسے اللہ کی پہچان کرواۓ، اسے رسول اللہﷺ کی پہچان کرواۓ، اسے دنیا میں آنے کا مقصد سمجھاۓ، اسے روز مرہ معاملات کی دعائیں سکھاۓ، سچ سے محبت سچ میں عزت سچ پر فضیلت اسکے دل میں اتارے جھوٹ سے نفرت، جھوٹ میں شرمندگی، جھوٹ پر گناہ کا یقین اسکے دل میں اتارے، گالی، غیبت، چغلی اور بری باتوں سے نفرت اسکے دل میں اتارے، رشتہ داروں سے محبت اور حسن سلوک اسکے دل میں اتارے، جب ماں کے اندر دین ہوگا، ماں کے اخلاق اچھے ہونگے تو یہاں نسلوں کی نسلیں پروان چڑھیں گی۔۔


اسی طرح باپ ہے روزانہ بچے کے ساتھ بیٹھ کر کچھ وقت گزارے، روز مرہ کے معاملات کا پوچھے، صحیح غلط کی پہچان کرواۓ، بڑوں کا ادب، بڑوں کی عزت سمجھاۓ، غریبوں سے محبت ضرورت مند کی مدد کا جذبہ اور شوق اسکے اندر پیدا کریں، اسکے سامنے یہ ٹیلیویژن موبائل ڈرامے فلمیں وغیرہ کا استعمال بلکل نہ ہو، اسکے سامنے لڑائ جھگڑے گالم گلوچ شور شرابہ بلکل نہ ہو، بچے کے سامنے سب سے آپ جناب سے بات کریں، بچہ ذرا بڑا ہو جاۓ تو اسے نماز پر اپنے ساتھ لیکر جاۓ، اسے لوگوں سے ملنا جلنا سکھائیں ، اچھے کام پر اسکی حوصلہ افزائ ہو، فارغ وقت میں پاس بٹھا کر رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام کے واقعات سناۓ۔۔


ایسے ماحول سے نکل کر آپ کا شہزادہ جب باہر کی دنیا میں اتا ہے تو کبھی باہر کے لوگوں سے خراب ہو کر نہیں آۓ گا بلکہ انکے  لیۓ اصلاح کا سبب بنے گا، انکے لیۓ خیر کا سبب بنے گا، جہاں جاۓ گا اپنی اچھائ چھوڑ آۓ گا، جہاں جاۓ گا والدین کا نام چھوڑ کر آۓ گا۔۔


اور یہ شہزادہ دنیا میں تو والدین کے لیۓ سر بلندی کا باعث بنتا ہی ہے لیکن اپنے اچھے اعمال و کردار کی بدولت والدین کے انتقال کے بعد قبر میں بھی انکے لیۓ راحت و سکون کا ذریعہ بنے گا...!!!

✍️_ محمد طاہر فاروق

Comments

Popular posts from this blog

11th Class Computer ONLINE Test/Paper

9th COMPUTER New Syllabus Notes