😢 آہ یہ زندگی! - حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ
آہ یہ زندگی!
: ہمارا وجود زندگی میں ہی غیر موجود ہونا شروع ہو جاتا ہے-
: ہمارے تزکرے زبانوں سے اتر جاتے ہیں-
: ہماری یاد دل سے دور ہو جاتی ہے-
: ہم تنہائی کے صحرا میں پہنچ جاتے ہیں-
اپنوں کے پاس اپنوں کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں ہوتا-
: ہماری محبت ہماری آزمائش بن جاتی ہے
اور
: رشتے دم توڑنا شروع ہو جاتے ہیں-
: کچھ رشتے ہمیں چهوڑ دیتے ہیں، کچھ کو ہم چهوڑ دیتے ہیں،
: کچھ ہمیں بهول جاتے ہیں اور کچھ کو ہم -
: وہ جن کے بغیر گزارا نہیں ہوتا تها، ان کے ساتھ گزرا مشکل ہو جاتا ہے -
: جب تک ہم والدین کے گهر میں رہتے ہیں، ہم خوش رہتے ہیں
اور
جب شومئی قسمت اسی مکان میں ماں باپ ہمارے گهر میں رہنے لگیں تو ہم اچها محسوس نہیں کرتے -
: ہماری ضرورتیں پوری کرنے والے والدین جب ہم سے اپنی ”ضرورت کا ذکر“ کرتے ہیں
: تو ہم ””رشتوں کی اذیت کی باتیں ““ کرتے ہیں -
: ہم اس عنایت کو بهول جاتے ہیں جو ہم پر بچپن میں ہوئی.
اسی طرح باقی رشتے آہستہ آہستہ دم توڑ دیتے ہیں -
:
: اس طرح ہم آہستہ آہستہ سے بیگانوں میں جا پہنچتے ہیں -
: ہمارے ساتھ قافلہ چل رہا تها- ایک ہجوم تها اپنوں کا، اپنے لگتوں کا- چلتے چلتے ہجوم بدل جاتا ہے-
: چہرے تبدیل ہو جاتے ہیں-
: ہجوم قائم رہتا ہے لیکن افراد بدل جاتے ہیں اور اس ہجوم میں ہمارے ماضی کی کوئی گمراہی نہیں ہوتی-
: سب اجنبی ہوتے ہیں- سب، سب سے بے خبر- ہمارے ہی قافلے میں ہمارا کوئی نہیں ہوتا -
: رشتے ٹوٹ چکے ہوتے ہیں- دل پتهر ہو چکا ہوتا ہے-
: نہ کوئی یاد ستاتی ہے، نہ کوئی غم رلاتا ہے- ہونا اور نہ ہونا برابر سا لگتا ہے.
:: باہمی احترام ختم ہونے سے کهچاؤ پیدا ہو گیا ہے
اور ” ڈپریشن کی وبا “ پهیل چکی ہے -
: آج جگہ جگہ کلینک کهل رہے ہیں - یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کا باطن مریض ہو چکا ہے -
__ محبت دل کی صحت اور بے مروتی بیماری - ___
:: رشتوں سے آزاد ہو کر انسان ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کا غلام ہو گیا ہے۔
حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ
(کتاب: حرف حرف حقیقت ۔۔۔۔ مضمون : رشتے)
Comments
Post a Comment